"دو راہہ"
یہ مَیں نے کہہ تو دیا تُجھ سے عِشق ہے مُجھ کو
تِرا ہی در میری آوارگی کا محور ہے
تُجھی سے رات کی مستی تُجھی سے دِن کا خُمار
تُجھی سے میری رگ و پے میں زہرِ احمر ہے
تُجھی کو مَیں نے دیا اِختِیار گریے پر
یہ چشم خُشک اگر ہے یہ چشم اگر تر ہے
تِرا ہی جِسم چمن ہے ترا ہی جسم بہار
تِری ہی زُلف سے ہر آرزُو مُعطّر ہے
تِرا ہی حُسن ہے فِطرت کا آخری شاہکار
کہ جو ادا ہے وہ تیری ادا سے کمتر ہے
یہ مَیں نے کہہ تو دیا تُجھ سے عِشق ہے لیکن
مِرے بیان میں اِک لرزشِ خفی بھی ہے
تُو میرے دعوئے اُلفت کی آن پر مت جا
کہ اِس میں ایک ندامت دبی دبی بھی ہے
وفا کی طلب ہے تِرا عِشق اور مِرے دِل میں
تِری لگن کے سِوا اور بے کلی بھی ہے
تُجھی سے دِل کا تلاطُم ہے اور نِگہ کا قرار
اِسی قرار و تلاطُم سے زِندگی بھی ہے
مگر ہیں اور بھی طُوفان اِس زمانے میں
کہ جن میں عِشق کی ناؤ شکستنی بھی ہے
مِری نِگاہ کے ایسے بھی ہوں گے چند انداز
کہ تُو کہے کہ یہ محرم ہے اجنبی بھی ہے
شبِ وِصال کی اِس مخملیں اندھیرے میں
مِری تلاش میں فردا کی روشنی بھی ہے
مُجھے تُو آ کے مِلی وقت کے دو راہے پر
کہ صُبحِ زیست بھی ہے موت کی گھڑی بھی ہے
(کاروان)
پطرسؔ بخاری
No comments:
Post a Comment