اسی خیال سے تاروں کو رات بھر دیکھوں
کہ تجھ کو صبحِ قیامت سے پیشتر دیکھوں
اس اک چراغ کی لو چبھ رہی ہے آنکھوں میں
تمام شہر ہو روشن تو اپنا گھر دیکھوں
مجھے خود اپنی طبیعت پہ اعتبار نہیں
خدا کرے کہ تجھے اب نہ عمر بھر دیکھوں
جدا سہی میری منزل بچھڑ نہیں سکتا
میں کس طرح تجھے اوروں کا ہمسفر دیکھوں
صداۓ غولِ بیاباں نہ ہو یہ آوازہ
میرا وجود ہے پتھر جو لوٹ کر دیکھوں
وہ لب فراز اگر کر سکیں مسیحائی
بقولِ درد میں سو سو طرح سے مر دیکھوں
No comments:
Post a Comment