تم کو وحشت تو سکھا دی ہے، گزارے لائق
اور کوئی حکم؟ کوئی کام، ہمارے لائق؟
معذرت! میں تو کسی اور کے مصرف میں ہوں
ڈھونڈ دیتا ہوں مگر کوئی تمہارے لائق
ایک دو زخموں کی گہرائی اور آنکھوں کے کھنڈر
اور کچھ خاص نہیں مجھ میں نظارے لائق
گھونسلہ، چھاؤں، ہرا رنگ، ثمر، کچھ بھی نہیں
دیکھ! مجھ جیسے شجر ہوتے ہیں آرے لائق
دو وجوہات پہ اس دل کی اسامی نہ ملی
ایک) درخواست گزار اتنے؛ دو) سارے لائق
اس علاقے میں اجالوں کی جگہ کوئی نہیں
صرف پرچم ہے یہاں چاند ستارے لائق
مجھ نکمے کو چنا اس نے ترس کھا کے عمیر!
دیکھتے رہ گئے حسرت سے بچارے لائق
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment