سراج الشعراء بیدم وارثی
تیغ کھینچی اس نے اور تیور بدل کر رہ گیا
آج بھی شوقِ شہادت ہاتھ مل کر رہ گیا
نزع میں بیمار کروٹ بدل کر رہ گیا
جب کہا اس نے سنبھل سنبھلا سنبھل کر رہ گیا
طفلِ اشک آنکھوں سے نکلا خون دل کے ساتھ ساتھ
ان کے دامن پر پڑا مچلا مچل کر رہ گیا
میرے آغوشِ تصور سے نکلنا ہے محال
اب خیالِ یار تو سانچے میں ڈھل کر رہ گیا
آتشِ رشک و حسد سے سنگ بھی خالی نہیں
دید موسیٰؑ کو ہوئی اور طور جل کر رہ گیا
اک ہمارا دل کہ محوِ لذتِ دیدارِ شمع
ایک پروانہ کہ دیکھا اور جل کر رہ گیا
رازِ دل کا پردہ رکھا رعبِ حسن یار نے
حرفِ مطلب منہ سے نکلا اور نکل کر رہ گیا
یادِ جاناں میں تری شعلہ مزاجی کے نثار
دل میں جو کچھ تھا سوا تیرے وہ جل کر رہ گیا
جاں نثاروں کا تھا آج اس درجہ مقتل میں ہجوم
خنجرِ قاتل بھی دو اک ہاتھ چل کر رہ گیا
سوز و سازِ عشق کا انجام بیدؔم دیکھ لو
شمع ٹھنڈی ہو گئی پروانہ جل کر رہ گیا
No comments:
Post a Comment