سرخئ وصل پسِ دیدہ تر پانی میں
کہاں دیکھے تھے عدیم اتنے شرر پانی میں
ڈوبتے یوں ہی نہیں دیدۂ تر پانی میں
یہی آنسو ہیں جو بنتے ہیں گہر پانی میں
پوچھ آہوں سے، ہواؤں میں تپش کیسی ہے
آنسوؤں نے تو کیا سارا سفر پانی میں
کیا خبر تھی تری آنکھوں میں بھی دل ڈوبے گا
میں تو سمجھا تھا کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
کشتئ دل نے کیا رقص بڑی دیر کے بعد
دیر کے بعد ہی ناچے ہیں بھنور پانی میں
اشک پلکوں پہ جو ٹھہرے ہیں تو حیرت کیسی؟
ساحلی لوگ بنا لیتے ہیں گھر پانی میں
آب دیدہ سی ملاقات ہوئی ہے تجھ سے
عکس آیا ہے ترا مجھ کو نظر پانی میں
لمس تالاب میں ہاتھوں کا قیامت نکلا
آگ سے بڑھ کے ہوا اس کا اثر پانی میں
دل کے دریا میں لگایا تھا تمنا کا شجر
گر کے بہتا ہی رہا سارا ثمر پانی میں
فرق اتنا سا ہے اس شخص میں اور مجھ میں عدیمؔ
وہ کنارے پہ اُدھر، میں ہوں اِدھر پانی میں
AddThis
Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed.
Enjoy! and follow for regular updates...
Thursday, 25 October 2018
عدیم ہاشمی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment