حقیقت اور ہی کچھ ہے، مگر ہم کیا سمجھتے ہیں
جو اپنا ہو نہیں سکتا اُُسے اپنا سمجھتے ہیں
یہ درسِ اوّلیں مجھ کو مِلا میرے بزرگوں سے
بہت چھوٹے ہیں وہ اوروں کو جو چھوٹا سمجھتے ہیں
نہ جانے کیوں ہماری اُن کی اک پَل بھی نہیں بنتی
جو اپنا قبلہءِ دل ، دولتِ دُنیا سمجھتے ہیں
اُمیدِ التّفاتِ دوستاں نے راز یہ کھولا
ہم اُن کو کیا سمجھتے ہیں وہ ہم کو کیا سمجھتے ہیں
بہ ہر دَم ایک نادیدہ معیّت سے مُشّرف ہوں
غلط فہمی ہے اُن کی جو مجھے تنہا سمجھتے ہیں
اُن اہلِ فقر کی اس شانِ استغنا کا کیا کہنا
جو تاجِ خُسروی کو خاکِ زیرِ پا سمجھتے ہیں
کسی کے حرفِ حق پر تُو عمل پیرا ہو اے واعظ!
ترے حق میں اِسے ہم کوششِ بے جا سمجھتے ہیں
خدا و مصطفٰی سے ہٹ کے، وہ ہیں سخت دھوکے میں
جو اپنی ذات کو تنقید سے بالا سمجھتے ہیں
بُرے، اچھوں کو بھی اچھا نہیں گردانتے لیکن
جو اچھے ہیں، بُرے لوگوں کو بھی اچھا سمجھتے ہیں
اُسی کے دَم سے رونق ہے نصؔیر اِس بزمِ عالم میں
جمالِ یار کو ہم انجمن آرا سمجھتے ہیں
No comments:
Post a Comment