جانے ہے کتنی صداقت اس میں کتنا جھوٹ ہے۔
کھل گیامجھ پر تو کہتا ہے کہ پہلا جھوٹ ہے۔
برملا اس نے کہا تم سے محبت ہے مجھے۔
آج اس ظالم کے لب پہ کتنا سچا جھوٹ ہے۔
یہ چمکتی ریت میری جان پانی ہی نہ ہو۔
یوں تو صحرا پیاس کی مد میں سنہرا جھوٹ ہے۔
اپنی اپنی زندگی سے مطمئن ہیں یار لوگ۔
ہر کسی کے آئینے میں اپنا اپنا جھوٹ ہے۔
سعد ضیغم جس کو سچ مانے بنا چارہ نہیں۔
کیا بتائیں آج اس کے دل میں کیسا جھوٹ ہے۔
No comments:
Post a Comment