بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کریں
تو جفا کار ہوا ہے تو وفا کس سے کریں
آئنہ سامنے رکھیں تو نظر تو آئے
تجھ سے جو بات چھپانی ہو کہا کس سے کریں
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
زلف سے چشم و لب و رخ سے کہ تیرے غم سے
بات یہ ہے کہ دل و جاں کو رہا کس سے کریں
تو نہیں ہے تو پھر اے حسن سخن ساز بتا
اس بھرے شہر میں ہم جیسے ملا کس سے کریں
تو نے تو اپنی سی کرنی تھی سو کر لی خاورؔ
مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کا گلا کس سے کریں
No comments:
Post a Comment