درد ہے کہ نغمہ ہے فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے
آپ کتنے سادہ ہیں چاہتے ہیں بس اتنا
ظُلم کے اندھیرے کو رات کہہ لیا جائے
آج سب ہیں بے قیمت گریہ بھی تبسّم بھی
دل میں ہنس لیا جائے دل میں رو لیا جائے
بے حسی کی دنیا سے دو سوال میرے بھی
کب تلک جیا جائے اور کیوں جیا جائے
داستاں کوئی بھی ہو جو بھی کہنے والا ہو
درد ہی سُنا جائے درد ہی کہا جائے
اب تو فقر و فاقہ کی آبرُو اِسی سے ہے
تار تار دامن کو کیوں بھلا سِیا جائے
No comments:
Post a Comment