وہ روز و شب بھی نہیں ہیں، وہ رنگ و بو بھی نہیں
وہ بزمِ جام و سبو بھی نہیں، وہ تو بھی نہیں
نہ دل دھڑکتے ہیں مل کر، نہ آنکھیں جھکتی ہیں
لہو کی گردشیں اب مثلِ آب جو بھی نہیں
کبھی کبھی کی ملاقات تھی سو وہ بھی گئی
تری نگاہ کا رنگ بہانہ جو بھی نہیں
کب آفتاب ڈھلے اور چاندنی چھٹکے
کسی کو اب یہ سرِ شام جستجو بھی نہیں
بس اب تو یاد سے ہی زندگی عبارت ہے
کہاں کا وعدہ کہ ملنے کی آرزو بھی نہیں
کہ جیسے بھیگے پروں سے اڑانیں چھن جائیں
دلوں کی شورش بے نام کو بہ کو بھی نہیں
وہ جس کی گرمی قیامت اٹھا رہی تھی کبھی
اسی بدن کو جو کاٹو تو اب لہو بھی نہیں
لگی ہے تیس برس سے ہمارے خوں کی جھڑی
مگر ابھی شجر دار سرخ رو بھی نہیں
میں سوچتا ہوں جئیں بھی تو کس لیے فارغؔ
کہ اب تو شہر میں پہلی سی آبرو بھی نہیں
فارغؔ بخاری
No comments:
Post a Comment