سبو پر جام پر شیشے پہ پیمانے پہ کیا گزری
نہ جانے میں نے توبہ کی تو مے خانے پہ کیا گزری
ملیں تو فائزان منزل مقصود سے پوچھوں
گزر گاہ محبت سے گزر جانے پہ کیا گزری
کسی کو میرے کاشانے سے ہمدردی نہیں شاید
ہر اک یہ پوچھتا ہے میرے کاشانے پہ کیا گزری
نہ ہو جو زندگی انجام وہ وجدان ناقص ہے
حضور شمع بعد وجد پروانے پہ کیا گزری
بتائیں برہمن اور شیخ ان کی خانہ جنگی میں
خدا خانے پہ کیا بیتی صنم خانے پہ کیا گزری
تو اپنے ہی مآل سوز غم پر غور کر پہلے
تجھے اس سے نہیں کچھ بحث پروانے پہ کیا گزری
کسی حکمت سے کر دے کوئی گویا مرنے والوں کو
یہ راز اب تک ہے سربستہ کہ مر جانے پہ کیا گزری
تری ہر سو تجلی اور میری ہر طرف نظریں
تجھے تو یاد ہوگا آئینہ خانے پہ کیا گزری
زباں منہ میں ہے عرض حال کر تو نے تو دیکھا ہے
کہ خوئے ضبط و خاموشی سے پروانے پہ کیا گزری
وہ کہتا تھا خدا جانے بہار آئے تو کیا گزرے
خدا جانے بہار آئی تو دیوانے پہ کیا گزری
یہ ہے سیمابؔ اک نا گفتہ بہ افسانہ کیا کہیے
وطن سے کنج غربت میں چلے آنے پہ کیا گزری
No comments:
Post a Comment