زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا
کیا کیا ہم نے کشٹ کمائے کہاں کہاں نِروان لیا
نقش دیے تری آشاؤں کو عکس دیے ترے سپنوں کو
لیکن دیکھ ہماری حالت وقت نے کیا تاوان لیا
اشکوں میں ہم گوندھ چکے اس کے لمس کی خوشبو کو
موم کے پھول بنانے بیٹھے لیکن دھوپ نے آن لیا
برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی
کچھ تو گردِ سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا
آنکھ پہ ہاتھ دھرے پھرتے تھے لیکن شہر کے لوگوں نے
اس کی باتیں چھیڑ کے ہم کو لہجے سے پہچان لیا
سورج سورج کھیل رہے تھے ساجد کل ہم اس کے ساتھ
اک اک قوسِ قزح سے گزرے اک اک بادل چھان لیا
(اعتبار ساجد)
No comments:
Post a Comment