دل لگا بیٹھا ہوں لاہور کے ہنگاموں سے
پیار ہے پھر بھی ہری پور، تری شاموں سے
کبھی آندھی، کبھی شُعلہ، کبھی نغمہ، کبھی رنگ
اپنا ماضی مجھے یاد آئے کئی ناموں سے
ایک وہ دن کہ بنا دید تڑپ جاتے تھے
ایک یہ دن کہ بہل جاتے ہیں پیغاموں سے
جب مرے ہاتھ پہ کانٹوں نے دیا تھا بوسہ
وہ مرا پہلا تعارف تھا گُل انداموں سے
جان و دل دے کے محّبت کے خریدار بنے
یہ کھری چیز تو مِلتی ہے کھرے داموں سے
چور بازار میں بِکنے نہ پُہنچ جائے کہیں
جِنسِ ایماں کو نکلوائیے گوداموں سے
پیروی حضرتِ غالبؔ کی ہوئی نصف قتیل
مے تو ملتی نہیں رغبت ہے فقط آموں سے
No comments:
Post a Comment