خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا
اسلم انصاری
خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا
میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
ٹھہر کے سن تو سہی غم کی ڈوبتی آواز
پلٹ کے دیکھ تو لے منظر شکست وفا
تو خواب تھا تو مجھے نیند سے جگایا کیوں
تو وہم تھا تو مرے ساتھ ساتھ کیوں نہ چلا
کہاں کہاں لیے پھرتا کشاں کشاں مجھ کو
لپٹ گیا ہے مرے پاؤں سے مرا سایہ
ہوا چلی ہے کہ تلوار سی چلی ہے ابھی
لہو میں ڈوب گیا شاخ شاخ کا چہرہ
دمک اٹھی ہیں جبینیں مرے خیالوں کی
لپک گیا ہے کہیں تیری یاد کا شعلہ
کسی کو خواہش دشت وجود ہی کب تھی
سنا فسانۂ ہستی تو پھر رہا نہ گیا
سنہری رت کے کسی نیلگوں تناظر میں
خط افق پہ وہ پیلا گلاب پھر نہ کھلا
No comments:
Post a Comment