مجھ سے ملنے کے وہ کرتا تھا بہانے کتنے
اب گزارے گا مرے ساتھ زمانے کتنے
میں گرا تھا تو بہت لوگ رکے تھے لیکن،
سوچتا ہوں مجھے آئے تھے اٹھانے کتنے
جس طرح میں نے تجھے اپنا بنا رکھا ہے،
سوچتے ہوں گے یہی بات نہ جانے کتنے
تم نیا زخم لگاؤ تمہیں اس سے کیا ہے،
بھرنے والے ہیں ابھی زخم پرانے کتنے
سیماب اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment