دستِ ضروریات میں بٹتا چلا گیا
میں بے پناہ شخص تھا، گھٹتا چلا گیا
پیچھے ہٹا میں راستہ دینے کے واسطے
پھر یوں ہوا کہ راہ سے ہٹتا چلا گیا
عجلت تھی اس قدر کہ میں کچھ بھی پڑھے بغیر
اوراق زندگی کے پلٹتا چلا گیا
جتنی زیادہ آگہی بڑھتی گئی مری
اتنا درونِ ذات سمٹتا چلا گیا
کچھ دھوپ زندگی کی بھی بڑھتی چلی گئی
اور کچھ خیالِ یار بھی چھٹتا چلا گیا
اجڑے ہوئے مکان میں کل شب ترا خیال
آسیب بن کے مجھ سے لپٹتا چلا گیا
اس سے تعلقات بڑھانے کی چاہ میں
فہمی میں اپنے آپ سے کٹتا چلا گیا
(شوکت فہمی)
No comments:
Post a Comment