AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Sunday, 26 May 2019

بشیر فاروقی

دھوپ رکھ دی تھی مقدر نے سرہانے میرے
عمر بھر آگ  میں جلتے  رہے  شانے  میرے

میں ترے نام کا عامل ہوں، وہ اب جان گئے
حادثے اب نہیں ڈھونڈھیں گے ٹھکانے میرے

چاند سی ان کی وہ خوش رنگ قبا، وہ دستار
ان  کی  درویشی  پہ  قربان  خزانے  میرے

موج رنگ آئی کچھ اس طور کہ دل جھوم اٹھا
ہوش گم کر  دئے  سرمست  حنا نے  میرے

پھر کوئی لمس مرے جسم میں شعلے بھر دے
پھر سے  یوں ہو  کہ پلٹ آئیں زمانے میرے

جا، تجھے چھوڑ دیا اے غمِ دوراں میں نے
ورنہ خالی  نہیں جاتے  ہیں  نشانے  میرے

ایسا لگتا تھا کہ لوٹ آئے ہیں گزرے ہوئے دن
مل گئے تھے مجھے کچھ دوست پرانے میرے

زندگی! دیکھ لی میں نے تری دنیا، کہ جہاں
وقت  نے  چھین لیے  خواب سہانے  میرے

اب میں ساحل پہ نہیں، میں ہوں تہہِ آبِ رواں
شہر در شہر  ہیں  ہونٹوں  پہ فسانے  میرے

گر پڑا سیلِ حوادث  مرے  قدموں پہ  بشیر
ہاتھ  تھامے جو  بزرگوں کی  دعا نے  میرے

(بشیر فاروقی)

No comments:

Post a Comment