غم ستائیں تو ترے لمس کا ترسا ہوا شخص
تیری تصویر سے گھبرا کے لپٹ جاتا ہے
عطا الحسن
رئیس فروغ
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
چپ ہے وہ مہر بہ لب میں بھی رہوں اچھا ہے
ہلکا ہلکا یہ محبت کا فسوں اچھا ہے
موسمِ گل نہ سہی شغلِ جنوں اچھا ہے
ہمدمو !! تیز رہے گردشِ خوں، اچھا ہے
تم بھی کرتے رہے تلقین سکوں کی خاطر
میں بھی آوارہ و سرگشتہ رہوں اچھا ہے
وہ بھی کیا خون کہ ہو جبر کی بنیاد میں جذب
جو یوں ہی مفت میں بہہ جائے وہ خوں اچھا ہے
بات وہ آئی ہے لب پر کہ کہے بن نہ رہوں
عقل جامے سے ہو باہر تو جنوں اچھا ہے
گر بھٹکنے ہی کی ٹھانی ہے رفیقوں نے تو خیر
منہ سے کچھ کہہ نہ سکوں ساتھ تو دوں اچھا ہے
دل کا احوال کہ کچھ ذکرِ زمانہ چھیڑوں
بات یوں چھیڑنا اچھا ہے کہ، یوں اچھا ہے
میں نے کیا کیا نہ کہا شعر میں ان سے حقی
وہ فقط سن کے یہ کہتے رہے " ہوں اچھا ہے "
(شان الحق حقی)
🌹نذرِ جان ایلیا🌹
تُو میرے رُوکھے پن پر تلملا نئیں
مَیں جتنا بے مروّت اب ھُوں، تھا نئیں
خوشی بےحد سُہانی کیفیت ھے
مگر غم سے زیادہ دیرپا نئیں
مِرے اشکوں کو مت بہلائیں، جائیں
یہ میرا مسئلہ ھے، آپ کا نئیں
تو کیا تیرا نہیں ھے تیرا مُنکر ؟
تو کیا تُو اپنے مُنکر کا خُدا نئیں ؟
چلو مانا نہیں جَون ایلیا مَیں
مگر تُو بھی تو کوئی فارھہ نئیں
“محبت ھوگئی” کہنا غلط ھے
محبت زندگی ھے، واقعہ نئیں
مُجھے الزام مت دے، بنتِ حوّا !
مَیں آدم ھُوں، فرشتہ نئیں، خُدا نئیں
یہی ھے داستانِ وصلِ جاناں
کہ کچھ کچھ تو ھُوا، کچھ کچھ ھُوا نئیں
تکلّف چھوڑ فارس ! پاؤں پڑ جا
ابھی وہ جانے والا ھے، گیا نئیں
رحمان فارس
قیس و فرہاد کو یک گو نہ رہا مجھ سے خلوص
جب بھی دیکھا تو پکار اٹھے کہ استاد آیا
وہ بھی ملتا جو گلے سے تو خوشی عید کی تھی
کوئی رہ رہ کے نصیر آج بہت یاد آیا
دل کا جو حال ہوا دشمنِ جانی کا نہ ہو
آخرِ شب کبھی آغاز کہانی کا نہ ہو
کون مانے گا کہ گزرے ہوئے موسم کیا تھے
جب قبا پر کوئی پیوند نشانی کا نہ ہو
عرفان صدیقی
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا
چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا
یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا
ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا
کئی دنوں سے
مجھے وہ میسج میں لکھ رہی تھی
جنابِ عالی
حضورِ والا
بس اِک منٹ مجھ سے بات کر لیں
میں اِک منٹ سے اگر تجاوز کروں
تو بے شک نہ کال سننا
میں زیرِ لب مُسکرا کے لکھتا
بہت بزی ہوں
ابھی نئی نظم ہو رہی ہے
وہ اگلے میسج میں پھر یہ لکھتی
سسکتی روتی بلکتی نظموں کے عمدہ شاعر
تم اپنی نظمیں تراشو لیکن
کبھی تو میری طرف بھی دیکھو
کبھی تو مجھ سے بھی بات کر لو
بس اِک منٹ میری بات سُن لو
میں ہنس کے لکھتا
فضول لڑکی
بہت بزی ہوں
بس اِک منٹ ہی تو ہے نہیں ناں
وہ کئی دنوں تک خموش رہتی
پھر ایک دن میں نے اُس کی حالت پہ رحم کھا کر
جواب لکھا
بس اِک منٹ ہے
اور اِک منٹ سے زیادہ بالکل نہیں سنوں گا
تو اس نے اوکے لکھا اور اِک دم سے کال کر دی
میں کال پِک کر کے چُپ کھڑا تھا
وہ گہرا لمبا سا سانس لے کر
اُداس لہجے میں بولی سر جی
میں جانتی ہوں کہ اِک منٹ ہے
اور اِک منٹ میں
میں اپنے اندر کی ساری باتیں کسی بھی صورت نہ کہہ سکوں گی
سلگتی ہجرت زدہ رُتوں کو اُداس نظموں میں لکھنے والے
عظیم شاعر
خُدا کی دھرتی پہ رہنے والے
اُداس لوگوں کا دُکھ بھی لکھنا
کبھی محبت میں جلتے لوگوں کا دُکھ سمجھنا
کبھی کسی نظم میں بتانا جنہیں تمہاری رفاقتیں ہی کبھی میسر نہیں ہوئی ہیں
جنہیں تمہاری محبتیں ہی کھبی میسر نہیں ہوئی ہیں
کبھی جو محرومیوں کے موسم بہت ستائیں تو کیا کریں وہ
کبھی جو تنہائیوں کی شامیں بہت رُلائیں تو کیا کریں وہ
ابھی تو آدھا منٹ پڑا تھا
مگر وہ لائن سے ہٹ چکی تھی
وہ اِک منٹ کی جو کال تھی ناں
وہ تیس سیکنڈ میں کٹ چکی تھی
میں کتنے برسوں سے اگلا آدھا منٹ گزرنے کا منتظر ہوں
وہ نرم لیکن اُداس لہجے میں بات کرتی
اُداس لڑکی مِری سماعت کے
اَدھ کھلے دَر سے یونہی اب تک لگی ہوئی ہے
ہٹی نہیں ہے
بہت سے سالوں سے چل رہی ہے
وہ کال اب تک کٹی نہیں ہے