چپ ہے وہ مہر بہ لب میں بھی رہوں اچھا ہے
ہلکا ہلکا یہ محبت کا فسوں اچھا ہے
موسمِ گل نہ سہی شغلِ جنوں اچھا ہے
ہمدمو !! تیز رہے گردشِ خوں، اچھا ہے
تم بھی کرتے رہے تلقین سکوں کی خاطر
میں بھی آوارہ و سرگشتہ رہوں اچھا ہے
وہ بھی کیا خون کہ ہو جبر کی بنیاد میں جذب
جو یوں ہی مفت میں بہہ جائے وہ خوں اچھا ہے
بات وہ آئی ہے لب پر کہ کہے بن نہ رہوں
عقل جامے سے ہو باہر تو جنوں اچھا ہے
گر بھٹکنے ہی کی ٹھانی ہے رفیقوں نے تو خیر
منہ سے کچھ کہہ نہ سکوں ساتھ تو دوں اچھا ہے
دل کا احوال کہ کچھ ذکرِ زمانہ چھیڑوں
بات یوں چھیڑنا اچھا ہے کہ، یوں اچھا ہے
میں نے کیا کیا نہ کہا شعر میں ان سے حقی
وہ فقط سن کے یہ کہتے رہے " ہوں اچھا ہے "
(شان الحق حقی)
No comments:
Post a Comment