خوابِ دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں
کیسے خوش طبع ہیں اس شہرِ دل آزار کے لوگ
موجِ خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں
اہلِ دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو
صاحبانِ دلِ شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں
خاک اُڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن
اوّلِ صبح کے غم آخرِ شب پوچھتے ہیں
ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اُٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں
یہی مجبور، یہی مہر بلب، بے آواز
پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں
کرمِ مسند و منبر کہ اب اربابِ حَکَم
ظلم کر چکتے ہیں تب مرضیِ رب پوچھتے ہیں
No comments:
Post a Comment