کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لئے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے
وہ بھی مجرم ہے بغاوت نہیں کی ہے جس نے
اس کو نا کردہ گناہی کی سزا دی جائے
ساری بستی کو پرکھنا تو مناسب بھی نہیں
ایک دروازے کی زنجیر ہلا دی جائے
ہاتھ جب اٹھ ہی گئے ہیں تو بلا اِستثناء
اس ستم گر کو بھی جینے کی دعا دی جائے
دم بھی گھٹ جائے تو پندار کی تذلیل نہ ہو
روزنِ در سے کسی کو نہ صدا دی جائے
میری آواز بھی اب اُس پہ گراں ہے اشعرؔ
آسماں تک کوئی دیوار اٹھا دی جائے
سید علی مطہر اشعر
AddThis
Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed.
Enjoy! and follow for regular updates...
Saturday, 28 September 2019
سید علی مطہر اشعر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment