کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لئے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے
وہ بھی مجرم ہے بغاوت نہیں کی ہے جس نے
اس کو نا کردہ گناہی کی سزا دی جائے
ساری بستی کو پرکھنا تو مناسب بھی نہیں
ایک دروازے کی زنجیر ہلا دی جائے
ہاتھ جب اٹھ ہی گئے ہیں تو بلا اِستثناء
اس ستم گر کو بھی جینے کی دعا دی جائے
دم بھی گھٹ جائے تو پندار کی تذلیل نہ ہو
روزنِ در سے کسی کو نہ صدا دی جائے
میری آواز بھی اب اُس پہ گراں ہے اشعرؔ
آسماں تک کوئی دیوار اٹھا دی جائے
سید علی مطہر اشعر
AddThis
Saturday, 28 September 2019
سید علی مطہر اشعر
Thursday, 19 September 2019
آزاد نظم
زبانوں کا بوسہ
زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے!
یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی اُٹھتی ہے خوشبو
یہ بدمست خوشبو جو گہرا، غنودہ نشہ لا رہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے!
مرے ذہن کے ریزے ریزے میں اک آنکھ سی کھل گئی ہے
تم اپنی زباں میرے منہ میں رکھے,
جیسے پاتال سے میری جاں کھینچتے ہو,,
یہ بھیگا ہوا گرم و تاریک بوسہ
اماوس کی کالی برستی ہوئی رات جیسے اُمڈتی چلی آ رہی ہے
ریاض ملک
Friday, 13 September 2019
شہزاد احمد
فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے
اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے
کوئی صورت بھی رہائی کی نہیں رہنے دی
ایسی دیوار پہ دیوار بنا دی تو نے
Tuesday, 10 September 2019
فارسی
بے تو بُوئے گُل مرا دودِ کبابِ بُلبُل است
جلوۂ شبنم، نمک پاشیدنِ زخمِ گُل است
تیرے بغیر، میرے لئے پھولوں کی خوشبو ایسے ہے جیسے کے بلبل کے جلنے کی بُو، اور اوس کا گرنا ایسے ہے جیسے پھولوں کے زخموں پر نمک پاشی!
Saturday, 7 September 2019
میثم علی آغا
تمہاری آنکھیں ، سمندر کے پانیوں سے بنی
تمہارے ھونٹ ، بنائے گئے گلابوں سے
”میثم علی آغا“