میرے لئے تو یہ بھی اذیت کی بات تھی
تجھ کو بھی دل کا حال سنانا پڑا مجھے
خون پھر خون ہے
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ، یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوںکے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوںسے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
ساحر لدھیانوی
برائے خاطرِ بیگانگاں خطا کردی
کہ ترکِ صحبتِ یارانِ آشنا کردی
تُو نے بیگانوں کی خاطر (خاطرِ طبع) کیلیئے خطا کی کہ یارانِ آشنا کی صحبت ترک کر دی۔
خُوشَم کہ ذوقِ شکارَم نرَفت از دلِ تو
ہزار بار مرا بستی و رہا کردی
میں خوش ہوں کہ میرے شکار کا ذوق تیرے دل سے نہیں گیا کہ ہزار بار تو نے مجھے قید کیا اور ہزار بار رہا۔
(عاشق اصفہانی)
وفا کنیم و ملامت کشیم و خوش باشیم
کہ در طریقتِ ما کافری ست رنجیدن
ہم وفا کرتے ہیں، ملامت سہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں کہ ہماری طریقت میں رنجیدہ ہونا کفر ہے۔
بہ پیرِ میکدہ گفتم کہ چیست راہِ نجات
بخواست جامِ مے و گفت بادہ نوشیدن
میں نے پیرِ میکدہ سے پوچھا کہ راہ نجات کیا ہے، اس نے جامِ مے منگوایا اور کہا مے پینا۔
مَبوس جُز لبِ معشوق و جامِ مے حافظ
کہ دستِ زہد فروشاں خطاست بوسیدن
اے حافظ محبوب کے لب اور مے کے جام کے سوا کسی کا بوسہ نہ لے کہ پارسائی بیچنے والے زاہدوں کا ہاتھ چومنا خطا ہے۔
(حافظ شیرازی)
زاں پیشتر کہ عالَمِ فانی شَوَد خراب
ما را بہ جامِ بادۂ گلگوں خراب کُن
(حافظ شیرازی)
منظوم ترجمہ ڈاکٹر خالد حمید
قبل اس کے سارا عالَمِ فانی خراب ہو
مجھ کو بہ جامِ بادۂ گلگوں خراب کر
آن دم کہ دل بہ عشق دہی خوش دمے بود
درکارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست
(حافظ شیرازی)
جب دل کو عشق میں لگا دیا، وہی اچھا وقت ہو گا
کارِ خیر میں کسی استخارہ کی ضرورت نہیں ہے
عَلی الصباح چُو مردم بہ کاروبار رَوند
بلا کشانِ محبّت بہ کوئے یار روند
(حافظ شیرازی)
صبح صبح جیسے لوگ اپنے اپنے کاروبار کی طرف جاتے ہیں، محبت کا دکھ اٹھانے والے (عشاق) دوست کے کوچے کی طرف جاتے ہیں۔