خود اپنی ذات سے اب تک مصالحت نہ ہوئی
چلے سفر پہ تو گھر کو مراجعت نہ ہوئی
کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا
انا پرست تھے دونوں، مفاہمت نہ ہوئی
وہ شخص اچھالگا اُس سے صاف کہہ ڈالا
یہ دل کی بات تھی ہم سے منافقت نہ ہوئی
زباں سے کہنا پڑا جو نہ کہنا چاہا تھا
وفا کی بات اشاروں کی معرفت نہ ہوئی
لُٹا کے بیٹھے ہیں نیندیں، گنوا کے چین آذر
یہ کار وبار ہی ایسا تھا کچھ بچت نہ ہوئی
No comments:
Post a Comment