وحید اختر
دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے
جب سے ترا نقش کف پا یاد نہیں ہے
افسردگی عشق کے کھلتے نہیں اسباب
کیا بات بھلا بیٹھے ہیں کیا یاد نہیں ہے
ہم دل زدگاں جیتے ہیں یادوں کے سہارے
ہاں مٹ گئے جس پر وہ ادا یاد نہیں ہے
گھر اپنا تو بھولی ہی تھی آشفتگی دل
خود رفتہ کو اب در بھی ترا یاد نہیں ہے
لیتے ہیں ترا نام ہی یوں جاگتے سوتے
جیسے کہ ہمیں اپنا خدا یاد نہیں ہے
یہ ایک ہی احسان غم دوست ہے کیا کم
بے مہری دوراں کی جفا یاد نہیں ہے
بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوئے بادل
جیسے انہیں میرا ہی پتا یاد نہیں ہے
اس بار وحیدؔ آپ کی آنکھیں نہیں برسیں
کیا جھومتی زلفوں کی گھٹا یاد نہیں ہے
AddThis
Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed.
Enjoy! and follow for regular updates...
Wednesday, 12 December 2018
وحید اختر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment