اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے
عمیر نجمی
اِن عَقل کے بَندوں میں آشفتہ سَری کیوں ہے
یہ تَنگ دِلی کیوں ہے یہ تنگ نظری کیوں ہے
اسرار اگر سمجھے دنیا کی ہر اِک شے کے
خود اپنی حقیقت سے یہ بے خبری کیوں ہے
سو جلوے ہیں نظروں سے مانندِ نظر پِنہاں
دعوائے جہاں بینی اے دیدہ وَری کیوں ہے
حَل جن کا عَمل سے ہے پیکار و جَدل سے ہے
ان زِندہ مسائل پر بحث نظری کیوں ہے
تُو دیکھ ترے دِل میں ہے سوزِ طلب کِتنا
مَت پوچھ دُعاؤں میں یہ بے اَثری کیوں ہے
اے گُل جو بہار آئی ہے وقتِ خود آرائی
یہ رَنگِ جُنوں کیسا یہ جامہ دَری کیوں ہے
واعظ کو جو عادت ہے پیچیدہ بیانی کی
حیراں ہے کہ رِندوں کی ہَر بات کَھری کیوں ہے
مِلتا ہے اِسے پانی اَشکوں کی رَوانی ہے
معلوم ہوا کھیتی زَخموں کی ہَری کیوں ہے
الفت کو اَسد کتنا آسان سمجھتا ہے
اب نالۂ شب کیوں ہے آہِ سحری کیوں ہے
کلام اسد ملتانی
انور جلال پوری
زلف کو ابر کا ٹکڑا نہیں لکھا میں نے
آج تک کوئی قصیدہ نہیں لکھا میں نے
جب مخاطب کیا قاتل کو تو قاتل لکھا
لکھنوی بن کے مسیحا نہیں لکھا میں نے
میں نے لکھا ہے اسے مریم و سیتا کی طرح
جسم کو اس کے اجنتا نہیں لکھا میں نے
کبھی نقاش بتایا کبھی معمار کہا
دست فنکار کو کاسہ نہیں لکھا میں نے
تو مرے پاس تھا یا تیری پرانی یادیں
کوئی اک شعر بھی تنہا نہیں لکھا میں نے
نیند ٹوٹی کہ یہ ظالم مجھے مل جاتی ہے
زندگی کو کبھی سپنا نہیں لکھا میں نے
میرا ہر شعر حقیقت کی ہے زندہ تصویر
اپنے اشعار میں قصہ نہیں لکھا میں نے
انور جلال پوری